(ڈاکٹر
محمد رضوان)
انسانوں
کا کوئی گروہ طاقت اور دولت کے حصول کے لئے کس حد تک گر سکتا ہے؟ حال ہی میں عراق
کے ایک اخبار السمیرا میں ایک دل دھلا دینے والی خبر چھپی ہے جس کے مطابق دہشت گرد
تنظیم داعش اپنے ہی جنگجوﺅں
کے جسمانی اعضاءنکال کر فروخت کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق کے صوبہ ننویح کے
ایک ہسپتال کے میڈیکل یو نٹ کا تعلق داعش سے ہے۔ جہاں دہشت گرد تنظیم داعش سے
منسلک اسٹاف نے پچیاسی (۵۸) جنگجوﺅں
کے جسمانی اعضاءبشمول گردے وغیرہ نکال لئے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ
دہشت گرد تنظیم داعش نے درجنوں عراقی عام شہریوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اِن کے
بہلاوے میں آ کر آنے والے مختلف نوجو انوں کے جسمانی اعضاءبھی نکال کر بین
الاقوامی سوداگروں کو اچھے داموں فروخت کئے ہیں اور ان کا یہ کاروبار مستقل جاری
ہے ۔
با
وسوق ذرائع سے ملنی والی معلومات کے مطابق یہ دہشت گرد، کئی سالوں سے اس جسمانی
اعضاءفروشی کے ذریعے حاصل ہونے والی دولت کو اپنی عیاشیوں اور اور دہشت گردی کے
لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ یہ ملعون جنگل کے اس قانون پر یقین رکھتے ہیں جس کے تحت
گوشت خور درندے شکار نہ ملنے سے تنگ آکر اپنے ہی گروہ کے کمزور درندے کو چیر پھاڑ
دیتے ہیں اور نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ ان میں شامل ہونے والے نوجوان عورتیں اور
مرد جب ان کے پاس پہنچتے ہیں تب جا کر ان پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے، کہ ان کی
باتوں میں آ کر جس جنت کی تلاش میں وہ یہاں پہنچے ہیں ، وہ تو بس سراب تھا، اور
یہاں تو بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ماحول میں بھی اور ماحول میں موجود درندہ صفت
دہشتگردوں کی سوچ اور ذہن میں بھی اِن کے کردار میں بھی، اور اِن کی شخصیت میں
بھی۔ بس اندھیرا کبھی نہ ختم ہونے والا گھپ اندھیرا۔
پاکستان اور کئی
دوسرے مسلم ممالک کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے لوگ بھی اِن کی چکنی چپٹی
باتوں کے سحر میں مبتلا ہو کر اِن کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور وہ اپنے پیاروں کو
چھوڑ کر اِن کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ تا ہم، اِن لوگوں کو پہلی ہی ملاقات میں
جنگجوئی کی تربیت کے نام پر ان دہشت گردوں کے سرد مہر چہرے دیکھ کر، انکی کرخت اور
کاٹ کھانے والی آواز سن کر، ان کے ہاتھوں سے پڑنے والے گرم گرم تھپڑ اور بھاری
جوتوں سے گہرائی تک چوٹ پہنچانے والے ٹھڈے کھا کر یہ سمجھ آتی ہے، کہ انکے لئے جنت
کو جانے والا دروازہ دراصل دُنیا میں رہتے ہوئے ہی دوزخ میں کھل گیا ہے۔ پر افسوس
صد افسوس، یہ سمجھ آنے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، اور واپسی صرف عبرت ناک موت کی
صورت میں ہی ممکن رہتی ہے، کیونکہ جو اِن کی مجرمانہ سوچ کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں
وہ جنگ یا دہشت گردی کے حملوں میں مارے جاتے ہیں،اور جو کمزور رہتے ہیں، تربیت کی
سختی برداشت نہیں کر پاتے یہ اُن کے جسمانی اعضاءایک ایک کر کے نکالتے رہتے ہیں،
اور بیچتے رہتے ہیں، پہلے آنکھیں نکال کر بیچتے ہیں، کچھ دِن بعد ایک گردہ، اور
پھر دوسرا گردہ ، دل، جگر اور پھیپھڑے وغیرہ۔ آپ ذرا تصور تو کیجئے اس درد کو، جو
ایک انسان کو یہ لوگ دیتے ہیں اور وہ بھی اُس انسان کو جو اِن کے لئے سب کچھ چھوڑ
کر اِن کے درمیان آگیا ہے، تو کیا عجب ہے کہ یہ دہشتگری کر کے لاشوں کے انبار لگا
دیں اور اسکا جشن بھی منائیں۔ مانا دنیا ظالموں سے بھری پڑی ہے، پر یہ تو ظلم و
بربریت میں اسرائیل سے بھی دو ہاتھ آگے نکل آئے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ لکھتے ہوئے
ہی اِن ظالموں کے ظلم کا شکار لوگوں کا در د میرے دل و دماغ اورمیری روح میں گُھس
رہا ہے۔ اور یہ سوچ کر تو روح کانپتی ہے کہ یہ لوگ میرے پیارے نبی کے پھیلائے دینِ
اسلام کی شکل بگاڑ کر کس طرح با آسانی اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے استعمال
میں لا رہے ہیں ۔ اور ہم سب چھپنے کی جگہ ڈھونڈھ رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا
آپ کو دہشت گرد تنظیم داعش کے وجود اور کردار میں دراصل دینِ محمدﷺ کو بدنام کرنے
اور دینِ اسلام کے خلاف اسلام دشمن قوتوں کی سازش نہیں دکھائی دیتی؟
سوشل میڈیا اور دوسرے
طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، سراب پر مبنی، یہ دہشت گرد ایک جال بچھاتے ہیں جو
اتنا بھکا دینے والا ہوتا ہے کہ مالی، سماجی، ذاتی، شناختی اور دوسری کئی طرح کی
محرومیوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ضرور متاثر ہو جاتے ہیں۔
اور ان کو اپنی موجودہ درپیش پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بہت آسان دکھائی دینے
لگتا ہے۔ یعنی صرف ایک بٹن دباﺅ
اور سیکنڈز میں جنت کی نا ختم ہونے والی نعمتوں اور کنواری حوروں کے درمیان پہنچ
جاﺅ۔ یہ سوچ نفسیاتی طور سے
کمزور اور کم علم لوگوں کو آگے بڑھ کر داعش کے دہشت گردوں کے ساتھ قدم سے قدم
ملانے کے لئے بے تاب کر دیتی ہے۔ اسکے بعد جو ہوتا ہے اسکا کچھ حصہ میں نے پچھلے
پیرا میں بیان کیا ہے۔
اب
اس سب کا حل کیا ہے؟ ہم سب بیٹھ کر دیکھتے رہیں کی دینِ محمد ﷺ کے نام کو دہشت گرد
استعمال کر رہے ہیں تو کرتے رہیں؟ وہ ہمارے ہی مسلمان بھائیوں کے جسمانی اعضاءنکال
کر بیچتے رہیں؟ ہم پر کبھی مسجد، کبھی مجلس، کبھی اسکول، کبھی کالج، کبھی
یونیورسٹی، اور جہاں اُن کا دل چاہے بم پھاڑیں؟ اور ہم فرقوں میں بٹ کر بس ایک
دوسرے سے لڑتے رہیں؟ کبھی نسل کے نام پر لڑیں؟ کبھی سیاست دانوں کے کہنے پر لڑیں؟
بس لڑتے رہیں؟ اور کوئی بہت حد ہو جائے تو اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اسلام دشمن
طاقتوں کو تباہ کر دے؟ بے شک دعا کرنا ایک اچھا عمل ہے، مگر ساتھ ساتھ تدابیر بھی
کرنا ہونگی، تا کہ اللہ تعالی برکت ڈالیں۔
ہم سب کو آنکھیں کھولنا ہونگی، کان کھولنا
ہونگے اور اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری اٹھا کر اپنے آپ کو تعلیم، کاروبار، انصاف
اور ہر شعبہ زندگی میں مثبت کردار اور جذبہ ایمانی کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا اور
ملک و قوم کی ترقی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ تا کہ ہم پاکستانی ہر اعتبار
سے مظبوط ہو جائیں اور پھر ہر دوسرے انسان کو اپنے کردار سے کے ذریعے تبدیلی کا
سبق دیں نہ کہ زبان ، ہاتھ یا ہتھیار سے۔
No comments:
Post a Comment